غصہ ایک نارمل جذبہ ہے جو ہم سب میں ہوتا ہے۔ لہذا سوال یہ نہیں ہے کہ آيا ہمیں غصہ آتا ہے بلکہ یہ ہے کہ غصہ کس چیز سے پیدا ہوتا ہے اور آیا ہمیں لگتا ہے کہ ہمیں اس پر قابو حاصل ہے۔
جو غصہ littsint کا موضوع ہے، وہ ایسا اچانک غصہ ہے جو بچے کیلئے ناقابل فہم ہو سکتا ہے۔ لیکن والدین کے غصے کی کوئی بھی قسم، اگر روزمرہ زندگی میں بہت بڑھ جاۓ، تو بچے اس سے متاثر ہوتے ہیں۔ خود والدین اکثر اپنے غصے کی شدت اور اچانک اظہار پر حیران ہو جاتے ہیں۔ اگر ہم تھکے ہوۓ یا دباؤ کا شکار ہوں اور خود کو بچے کے ساتھ پیش صورتحال میں پھنسا ہوا، بے بس یا بے اختیار محسوس کرتے ہوں تو ہمیں غصہ زیادہ کثرت سے آتا ہے۔
والدین اپنے بچوں کا بھلا چاہتے ہیں اور اچھے ماں باپ بننا چاہتے ہیں۔ اسکے باوجود کئی والدین محسوس کرتے ہیں کہ وہ اپنے غصے یا مارپیٹ سے بچوں کو خوفزدہ کر دیتے ہیں اور انہیں فکر ہوتی ہے کہ یہ بچوں کو کس طرح متاثر کر رہا ہے۔ کوئی حل مہیا نہ ہونے کی وجہ سے اکثر والدین بچوں پر غصے کے اثرات کو معمولی بات قرار دیتے ہیں اور اس بارے میں کم سے کم بات کرتے ہیں۔
غصے پر قابو پانے کیلئے مدد طلب کرنے والے کئی والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ نسل در نسل چلنے والا غصے کا سلسلہ توڑا جاۓ۔ وہ اپنے بچے پر اس طرح غصہ نہیں کرنا چاہتے جیسے خود انکی ماں یا باپ ان پر غصہ کرتے تھے۔ انسان پر بچپن کے نقوش باقی رہ جاتے ہیں، اچھے بھی اور برے بھی۔ جو سلوک ہمارے ساتھ بچپن میں ہوا تھا، وہ اس پر اثرانداز ہو سکتا ہے کہ ہم بڑے ہو کر دوسروں کے ساتھ کیسے پیش آتے ہیں۔ اگر ہم نے دیکھا ہو کہ ہمارے ماں باپ ہمارے ساتھ عزت سے پیش نہیں آتے تھے تو یہ امکان زیادہ ہوتا ہے کہ ہم اپنے بچوں سے اپنی توقع کے مطابق عزت نہ ملنے پر غصے کا ردعمل اختیار کریں۔ شرم اور ناانصافی کے پرانے جذبات کی وجہ سے ہم اپنے بارے میں یا بچے کے بارے میں غیر ضروری منفی باتیں سوچنے لگتے ہیں۔ اس طرح ہم منفی سوچوں اور جذبات کے ایک مضر دائرے میں پھنس سکتے ہیں جو غصے کا امکان بڑھا دیتا ہے۔
کچھ دوسرے والدین کو لگتا ہے کہ وہ اپنے بچوں پر اس سے زیادہ غصہ کرتے ہیں جتنا غصہ انکے والدین ان پر کرتے تھے۔ انہیں یہ سمجھنے میں مشکل ہو سکتی ہے کہ انکا ردعمل اتنا شدید کیوں ہوتا ہے اور وہ اپنے بچوں کو ایسے غصے کا نشانہ بنانے پر شرمندگی محسوس کرتے ہیں۔ یہ غصہ زندگی کے ایسے حالات میں پیدا ہو سکتا ہے جب ذہنی دباؤ ہو اور اپنے آپ سے بہت زیادہ تقاضے ہوں۔ بچوں اور اپنے خاندان کیلئے زیادہ سے زیادہ کر پانے کی مخلصانہ کوششوں کا انجام غصہ اور فرسٹریشن ہوتا ہے۔ Littsint کا مواد ہم والدین کو یہ آگہی دلانے میں مدد کر سکتا ہے کہ جب ہم بچے کے ساتھ پیش آنے والی ایک صورتحال کا مطلب اخذ کر رہے ہوں تو ہمیں ہمیشہ انتخاب کا موقع حاصل ہوتا ہے۔ ہم بچے کے بارے میں کیا سمجھتے ہیں، وہ گستاخ ہے یا اسکا دھیان اپنے کھیل میں ہے، اس سے ہمارے دل میں اٹھنے والے جذبات پر اور اس پر اثر پڑتا ہے کہ ہم اپنے عمل کے انتخاب کیلئے کیا محسوس کرتے ہیں۔
Cognitive (سوچنے کا) طریقہ، ‘اے بی سی’ ماڈل
Littsint کے مواد کی بنیاد سوچنے کے ایک ماڈل پر ہے جس میں سوچوں، جذبات اور رویّے کا باہمی تعلق مرکزی اہمیت رکھتا ہے۔ ہم دل ہی دل میں خود سے گفتگو کرتے ہیں جس پر اکثر آٹومیٹک سوچیں چھائی ہوتی ہیں جن کا ہماری شعوری سوچ سے اتنا تعلق نہیں ہوتا۔ والدین کی عام آٹومیٹک سوچیں یہ ہو سکتی ہیں "میں ایک برا باپ ہوں یا میرا بچہ میری عزت نہیں کرتا”۔ سوچنے کے ماڈل میں والدین آٹومیٹک سوچوں پر کام کرتے ہیں اور انہیں پتہ چلتا ہے کہ سوچوں میں تبدیلی سے کس طرح جذبات میں تبدیلی آ سکتی ہے جس کے سبب انہیں بچے کے ساتھ سلوک کے مختلف طریقے مہیا ہو جاتے ہیں۔
‘اے بی سی’ ماڈل کو Cognitive (سوچ اور ذہنی افعال سے متعلق) تھراپی میں بہت استعمال کیا جاتا ہے تاکہ سوچوں، جذبات اور رویّے میں تبدیلی کیلئے باقاعدہ کام کیا جاۓ۔ ‘اے’ سے مراد صورتحال یا موقع ہے، ‘بی’ سے مراد سوچ ہے اور ‘سی’ سے مراد جذباتی کیفیت اور جسم میں تحریک ہے۔ ‘اے بی سی’ ماڈل صورتحال، سوچوں اور جذبات کے درمیان تعلق کو واضح کرنے کا ایک طریقہ ہے۔ ماں اور باپ بچے کے ساتھ صورتحال کی مختلف توجیہات کیلئے ذہن کھلا رکھنے (اے)، اپنے اور بچے کے بارے میں منفی سوچوں سے آگاہ ہونے (بی)، اور ابھرنے والے جذبات (سی) پر بہتر کنٹرول کی مشق کرتے ہیں۔
غصے پر بہتر قابو اپنے آپ حاصل نہیں ہو جاتا۔ اس کیلئے کافی وقت تک بچے کے ساتھ پیش آنے والے مواقع پر مشق کرنا پڑتی ہے۔ کامیاب مشق سے ہمیں بچے کے ساتھ صورتحال کو بخوبی سنبھالنے کا احساس حاصل ہوتا ہے، بجاۓ اس کے کہ ہم خود کو لاچار محسوس کریں جس سے غصے اور مارپیٹ کا امکان بڑھ جاتا ہے۔